جبر کا تسلسل
جبر کے تسلسل نے
ضبط کرنے والوں کو
جب کبھی بغاوت کا
راستہ دکھایا ہے
!انقلاب آیا ہے
شہرِ بے سکون میں
جبر کا تسلسل ہے
ہر گھڑی اذیت ہے
راہبروں کی قلت ہے
طبلِ جنگ بج چکا
ضبط کرنے والوں کو
یہ بھی کر دکھانا ہے
راہبری کے قحط میں
زندگی کی قیمت پر
!انقلاب لانا ہے
مختصر رفاقت
میں رات کی خامشی کے ڈر سے
گذرتے لمحات کے کھنڈر سے
پرانی یادوں کی راکھ لے کر
یونہی ہوا میں بکھیر دوں گا
تو مختصر سی کوئی رفاقت
کئی ستاروں کا نور پہنے
گلاب کی خوشبوؤں میں لپٹی
فصیلِ دل پر اُتر کے آخر
مری اداسی سمیٹ لے گی
وہ مختصر سی تری رفاقت
!جو میں کبھی نہ بھلا سکوں گا